راہ عزیمت کا مسافر(مجاہد دوراں سید مظفر حسین کچھوچھوی)

راہ عزیمت کا مسافر
(مجاہد دوراں سید مظفر حسین کچھوچھوی)

بلال احمد نظامی مندسوری، رتلام مدھیہ پردیش
_______________________________________
شمالی ہند کےصوبہٕ اتر پردیش کےمردم خیز قبصہ کچھوچھہ مقدسہ میں اعلی حضرت علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ (1266_1355ھ) کےبرادر اکبر اور مرشد گرامی اشرف الصوفیاء سید شاہ اشرف حسین اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ (1260_1348ھ) کےآنگن میں (1338ھ_ 1920ء)میں فضل خداوندی سےایک بچےکی کلکاری گونجتی ہے،جس سےاہل خاندان میں خوشیوں کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس نومولود کا نام مظفر حسین تجویز ہوتاہےاور آگےچل کر یہ نومولود ملت اسلامیہ کاقائد،رہبر اور رہنما بن کر افق آسمان پر جگمگاتاہےاور دنیا والےاس کی اولوالعزمی،پامردی، جواں مردی، بےخوفی، بےباک لیڈر شپ اور کامیاب قیادت دیکھ کر مجاہد دوراں کےلقب سےیاد کرتےہیں۔ 
مجاہد دوراں حضرت علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی مجاہدانہ زندگی کےاَنْمِٹ نقوش کامطالعہ کرنےکےلیےمعارف مجاہد دوراں (جوابھی غیر مطبوع ہے،خدا کرے جلد طبع ہوجائے) کامطالعہ کیجیےگا،ابھی صرف آپ کی عزیمت بھری زندگی کےکچھ نقوش اسکرین پر پیش کررہاہوں۔
 
مجاہد دوراں حضرت علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی علیہ الرحمہ راہ عزیمت کےایک مسافر تھے، آپ نے اپنی زندگی کا آرام چین سکون، سب کچھ ملت اسلامیہ کےلیےقربان کردیاتھا، آپ کےصاحبزادےسید ظفر مسعود اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ اپنےانٹرویو میں فرماتےہیں کہ
" ہم تمام بہن بھائیوں کی تربیت ہماری والدہ نےکی ہے،والد صاحب جب کبھی تشریف لاتے تو ایک دو دن ٹھہر کر پھر کسی ملی مسئلے کی گتھی سلجھانےکےلیےعازم سفر ہوجاتےاور ہماری والدہ بھی کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتیں بلکہ خوشی خوشی انھیں ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کےلیے رخصت فرمادیتیں۔"
مجاہد دوراں کی زندگی ملت سلامیہ کےحقوق کی بازیابی اور مظلوموں کی حمایت میں پرزور آواز بلند کرنےکےسبب اکثر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتےگزری اور آپ ہمیشہ حکومت وقت کی آنکھوں میں کھٹکتےرہے۔
عام آدمی کے لیے قیدوبند کاتصور ہی ایک بھیانک اور لرزہ خیز ہوتا ہے،اس لیے کہ قیدوبند میں جواذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرناہوتی ہیں ان کاتصور کرکےہی روح کانپنے لگتی ہے، البتہ کچھ مرد مجاہد ،باطل شکن ،نمونۂ اسلاف ،ترجمان حق ایسے ہوتےہیں جن کارشتہ قیدوبند سے جڑا رہتاہے،یہ اس لیے نہیں کہ انھیں قید وبند سے رغبت یا محبت ہے بل کہ اس لیےکہ وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف برسرپیکار رہتےہیں ،مظلوموں کی آواز بن کر ظالم کے سامنے آہنی دیوار بن کر ڈٹ جاتے ہیں ،حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق بات کہناان کا وطیرہ اور شعار ہوتاہے، اسی لیے ظالم حکومتیں انھیں ڈرانے دھمکانے ،ذہنی طور پر مفلوج کرنے ، قوت مدافعت کو توڑنے اور ہراساں کرنے کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی ہیں تاکہ اس کی وحشت اور خوف سے اس کاجذبۂ حق سرد پڑجائےاور اس کے مجاہدانہ اور سرفروشانہ عزائم خاک نشیں ہوجائیں، لیکن طاغوتی قوتوں کو یہ معلوم نہیں ہوتاکہ ایک بارجوسرپرکفن باندھ لیتاہے وہ نہ تو انگریزوں سے ڈرتاہے اور نہ آزادی کےبعد انگریزوں کے فکری غلام حکمراں طبقے سے ڈرتاہے، بل کہ وہ مرد مجاہد تو قیدوبند کی اذیتیں سہتےہوئے مزید پر عزم ہوکر یہ کہتاہے: 
میرے مشرب سے مجھے کون ہٹا سکتاہے 
یہ اسیری بھی میری سنت آبائی ہے 
تو مظفر کو مقید نہ سمجھنا صیاد 
یہ جہاں بیٹھ گیا انجمن آرائی ہے

مجاہد دوراں علیہ الرحمہ ان پرعزم ،باہمت اور حوصلہ مند مجاہدین اورشخصیات میں سے ہیں جنھوں نے ملک وملت کے لیے قربانیاں بھی دی ہیں اور آوازۂ حق بلند کرنےکی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتوں سے بھی گزرےہیں لیکن کبھی بھی اپنی زبان پر حرف شکایت اور شکوہ نہیں آنے دیا بل کہ ہر بار نئے عزم اور ہمت کے ساتھ یہ کہتےہوئے میدان عمل میں قدم رکھا ۔
دل میں منصوبے ہیں کیا اہل وطن باندھے ہوئے
آئیں میرے ساتھ اب سرسے کفن باندھے ہوئے 

*پہلی گرفتاری:*
1949ء میں پڑوسی ملک پاکستان کے کچھ معتقدین کی دعوت پر مجاہد دوراں علیہ الرحمہ پاکستان تشریف لےگئے ،دونوں ملکوں میں بٹوارہ ہوئے زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا تھا، اس وقت آسانی کے ساتھ آمدورفت بھی جاری تھی ۔مجاہد دوراں علیہ الرحمہ کے وہاں بیانات بھی ہوئے تھے۔
جب آپ علیہ الرحمہ ہندوستان تشریف لائے تو شکوک وشبہات کی بنیاد پر حکومت نے آپ علیہ الرحمہ کو فیض آباد کی جیل میں قید کردیا، جس کے تعلق سے مجاہد دوراں علیہ الرحمہ رقم فرماتےہیں :
" مارچ 1949 ء میں مشرقی پاکستان احباب کی دعوت پر گیا ڈھاکہ،چاٹگام،صیدپور وغیرہ میں تقریرکرنے کاموقع ملا اور جو اردو کے خلاف اجیٹیشن چل رہاتھا اس میں میری تقریروں کا اثر زیادہ مؤثر ہوا، لیکن مشرقی پاکستان کی تقریریں وہاں کے اخبارات میں نیز کلکتہ کے اخبارات میں شائع ہوئیں، جن کا یہ اثر ہواکہ جب میں فیض آباد یکم رمضان المبارک کو آیا تو اسٹیشن ہی پر گرفتار کرلیاگیا اور مجھ پر مختلف قسم کے الزامات لگائے گئے اور جیل میں مختلف قسم کے وقتا فوقتا سوالات بھی ہوتےرہے لیکن بحمداللہ پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں ہوئی بل کہ سیاسی زندگی میں اور پختگی سی آگئی عید کے دن بعد نمازعید خودبخود رہائی کا آرڈر آگیا"۔(سرگذشتۂ حیات مجاہد دوراں ،غیرمطبوع )  

*بابری مسجد کے لیے اسیری:*
22۔23 دسمبر 1949 ء کی درمیانی رات میں ہنومان گڑھی کے مہنت " ابھے رام داس " نےسازش کےتحت اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی ،مجاہد دوراں علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے فیض آباد میں اس ناپاک حرکت کے خلاف ایکشن لیتےہوئے زبردست احتجاج کیا جس کے نتیجےمیں آپ علیہ الرحمہ کو مختصر مدت کےلیے گرفتارکرلیاگیا ۔(ہفتہ وار اخبار سیکولرقیادت ،مجاہد دوراں نمبر ۔مضمون ڈاکٹر شفیق الرحمان برق صاحب ایم پی) 

*1964ء میں گرفتاری:*
1964ء مغربی بنگال فساد میں مظلوموں کی آواز بن کر جب آپ علیہ الرحمہ نے تمام تنظیموں وتحریکوں کےبرخلاف حقائق بیانی کرتےہوئےحکومت کوذمہ دار ٹھہرایا اور فساد کو منظم سازش قرار دیا،اسی سبب آپ کو اور آپ کےدونوں رفقا قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ اور مولاناسید شاہ اسرار الحق صاحب قبلہ شاہجہان پوری کو مغربی بنگال کی سرحد سےباہر کردیاگیا۔
مجاہد دوراں علیہ الرحمہ نےدہلی پہنچ کرپارلیامنٹ میں حقائق رکھناچاہیں لیکن آپ کو اگلی تاریخ دی گئی، جب آپ علیہ الرحمہ دہلی سےعیدکرنےکےلیے گھرپہنچےتو آپ کو گرفتارکرلیا،اس گرفتاری کی روداد مجاہد دوراں علیہ الرحمہ کےقلم سےملاحظہ فرماتےچلیں:
"اسی شب میں عیدکرنےمکان روانہ ہوگیا،15 فروری 1964ء کی شام کو پولیس مکان پر پہنچ گئی اور روزہ کھولنےکےبعد فیض آباد جیل بھیج دیاگیا،عیدجیل کی چہار دیواری میں ہوئی،دس ماہ مسلسل فیض آباد جیل میں رہا،میرےاوپر ٹانڈہ،کانپور ودیگر مقامات کی تقریروں کےبہانےمختلف قسم کےمقدمات چلائےگئے(لیکن جس کو خدا رکھےاس کون چکھے)حکومت کو مجبورا سارے مقدمات پنڈت وجی لکشمی کےالکشن کےموقع پر وڈرا کرنےپڑےکیوں کہ الہ آباد پھول پور ہنڈیاکے تمام مسلمانوں نےیہ کہہ دیاتھاکہ جب تک مولانا مظفرحسین کو رہانہیں کیاجاتااور تمام مقدمات واپس نہیں لیےجاتےہم لوگ ووٹ نہیں دیں گے، مسلمانان الہ آباد کی مشترکہ آواز پر حکومت کو گھٹنےٹیک دینےپڑےاور رہائی کاآرڈر اس دن ہوا جس دن میرےمقدمات میں بحث ہونےجارہی تھی۔
میرےمشرب سےمجھےکون ہٹاسکتاہے
یہ اسیری بھی میری سنت آبائی ہے۔
سید مظفرحسین جیل فیض آباد 15 نومبر1964ء۔"
(سرگذشتہ حیات مجاہددوراں۔غیرمطبوع)
فیض آباد جیل میں آپ علیہ الرحمہ نےایک کتاب بہ نام "مشعل راہ" تصنیف فرمائی تھی جو چوری ہوگئی۔ 
اس تعلق سےآپ علیہ الرحمہ رقم فرماتےہیں:
"یوں تومیری داستان زندگی بہت طویل ہے اگرمیں اس کو قلم بندکروں توایک ضخیم کتابچہ تیار ہوسکتاہےلیکن یہاں داستان غم نہیں لکھناہے،64ءمیں میں نےفیض آباد جیل میں ایک کتاب (مشعل راہ) کےنام سےتحریرکی تھی،لیکن افسوس اچانک رائےپورسےالہ آباد آتےہوئےٹرین میں اٹیچی چوری ہوگئی،وہ مسودہ اورکچھ ضروری کاغذات بھی اسی کےساتھ غائب ہوگئے“۔(نسیم حجاز:ص 15)
فیض آباد جیل میں اسیری کےدنوں میں مجاہددوراں علیہ الرحمہ نے چندکلام بھی لکھےتھے جو مجموعہ کلام "نسیم حجاز" میں شامل ہے۔ 
اس کلام میں حق و صداقت کےنتیجےمیں ملنےوالی اذیت کو سرور سےتعبیرکیاہےتو شکوۂ دارو رسن کو باعث رسوائی بتایاہے۔
گویامجاہد دوراں علیہ الرحمہ نہ تو قیدوبند سےگھبرائےہیں اور نہ ظالم کےظلم وجفاکےآگے ہتھیار ڈالےہیں بل کہ ایک مجاہد کی طرح فرماتےہیں کہ
 "میں تونہ گھبرایا البتہ طوق وسلاسل کی کڑیاں ضرور گھبرائی ہے۔"
اس کلام میں مجاہد دوراں کےعزم وہمت اور جواں مردی کےبےمثال جذبات کابہ خوبی احساس کیاجاسکتاہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
*اسیرزنداں*
(12 فروری 1964ء کو فیض آباد جیل میں لکھی ہے)
آج مسرور ہوں میں قیدکی تنہائی ہے 
میں نےتوحق وصداقت پہ سزاپائی ہے
شکوۂ دار و رسن باعث رسوائی ہے
میں نےہرحال میں جینےکی قسم کھائی ہے
پرسش غم کی کسےتاب ہےاےچارہ گرو
اب طبیعت نئے انداز سےگھبرائی ہے 
قوم و ملت کے نگہبان محافظ توہے
زندگی گردش ایام سے ٹکرائی ہے
لائے زنداں میں مجھے اہل جفا تولیکن 
ہرکڑی طوق و سلاسل کی بھی گھبرائی ہے
میرے غم خانےمیں واللہ کمی کچھ بھی نہیں 
دشت غربت بھی ہے زنداں بھی ہے تنہائی ہے
میرےمشرب سےمجھےکون ہٹاسکتاہے 
یہ اسیری بھی میری سنت آبائی ہے 
تو مظفر کو مقید نہ سمجھنا صیاد
یہ جہاں بیٹھ گیا انجمن آرائی ہے 
(نسیم حجاز ۔ص: 114)
مذکورہ نظم میں کہیں سرور ہےتو کہیں غم ودرد کی جھلکیاں اور کہیں عزم وہمت کا پیکر لیےسنت آبائی پر فخروافتخار۔
1964ء میں فیض آباد جیل میں آپ علیہ الرحمہ نے دونظمیں اور لکھیں جن میں آپ علیہ الرحمہ کےعزم وحوصلہ اور دردوغم کی جھلک واضح ہے۔
نظم کا نام صحن زنداں اس کےنیچے 1964ء رقم ہے۔اس نظم کا مطلع اور مقطع پڑھیں:
گھٹائیں جھوم کر آتی ہے جس دم صحن زنداں پر 
نہ پوچھوکیا گزرتی ہے میرے قلب پریشاں پر
میری کشتی سے ٹکراکر انھیں کیا کچھ ہو ا حاصل
ذرادیکھو تو کیا گزری مظفر موج وطوفاں 
(نسیم حجاز۔ص: 118)
آپ علیہ الرحمہ کےمجموعہ کلام نسیم حجاز کے صفحہ 116 پر زندگی قفس کےنام سےایک نظم اور ہے،اسی نظم کےنیچے آپ علیہ الرحمہ لکھتےہیں   
"ایک دن کچھ اداسی تھی جیل میں 1964ء"
اس نظم کےچند اشعار پڑھ کر مجاہد دوراں علیہ الرحمہ کےایام اسیری کی کیفیات کا اندازہ لگائیے۔
نہ کرسکے گی اسے محو شام زنداں کی 
ابھی ہےیاد مجھےصبح کوئےجاناں کی 
یہ تونےآتےہی کیاکَہ دیا خداجانے 
بڑی اداس فضا ہوگئی گلستاں کی
یہ کس نے چھیڑ دیا آہ نغمہ جاں کاہ 
لرزاٹھی ہے ہرایک شیئ ہمارےزنداں کی
میرے جنوں نے بڑاکام کردیاناصح 
مجھے توراس فضا آگئی بیاباں کی 
لکھی تھی میرےمقدرمیں زندگی قفس
توراس آتی بھی کیسے فضاگلستاں کی 
نہیں ہے مجھ کو گوارہ قفس میں بھی گلچیں 
کہ فصل گل میں لٹے آبروگلستاں کی 
نوازشات جنوں ان دنوں ہیں پھر ارزاں 
الہی خیرمیرےجیب کی گریباں 
سلجھ گئیں ہیں مقدر کی گتھیاں واللہ
قسم جو کھائی مظفرنے زلف جاناں کی

*علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےاقلیتی کردار کےتحفظ کےلیےمجاہددوراں کی گرفتاری:*
سب سےپہلے 1965ء میں گرفتاری کےپس منظر کا جائزہ لیکر آگےبڑھتےہیں۔ 25 اپریل 1965ء میں اے ایم یو میں علی یاور جنگ وائس چانسلر بنا کر بھیجے گیے جو بعد میں مہاراشٹرکے گورنر بنانے گیےتھے، فنی تعلیم کے شعبوں میں علی گڑھ کے اندرونی طلبہ کے داخلے کو 75 فیصدی سے گھٹا کر 50 فیصدی کر دیا، یہ فیصلہ طلبا کے مستقبل سے ایک کھلواڑ تھا،علی یاور جنگ کے فیصلے کے خلاف مسلم طلبا کے ساتھ ہندو طلبا نے بھی آواز اٹھائی تھی کیونکہ یہ فیصلہ ان کے مستقبل سے بھی کھلواڑ تھا، طلبہ نے ایک مجلسِ عمل بنائی، مطالبات پیش کیے مگر وائس چانسلر نے پولیس بلائی اور پولیس و طلبا کے درمیان کچھ جھڑپ ہوئی بعدازاں کسی مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر پولیس نے گولی چلا دی،جس میں دو طلبہ کی جان گئی اور بہت سے زخمی ہوئے،بات یہ تھی کہ یہ سب حکومت کی ایماء پرہوا اس لیےکہ فرقہ پرست حکومت کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کااقلیتی کردار اور اس کےساتھ مسلم کا لاحقہ ہضم نہیں ہورہاتھا اس لیےیہ پورا کھیل رچاگیا۔
بعدازاں اس وقت کے مرکزی وزیر تعلیم محمد علی کریم چھاگلہ(جنہیں عام طور پر ایم سی چھاگلہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جو بعدازموت اپنی وصیت کے مطابق دفن نہیں کیے گیے، جلائے گیے تھے)نےگولی باری کو جائز ٹھہراتے ہوئے پارلیامنٹ میں یہ بیان دیا کہ چونکہ پکے نیشنلسٹ علی یاور جنگ مسلم یونیورسٹی میں سیکولر نظام کا چلن قائم کرنا چاہتے تھے اس لیے ان پر سازش رچ کر قاتلانہ حملہ کیا گیا،پولیس کی گولی باری سازشیوں کا دفاع ٹھہری، اس معاملےسےفائدہ اٹھاکرمسٹر چھاگلہ ایک آرڈی ننس لے کر آے(جیسے ان دنوں مودی سرکار اور یوگی سرکار آرڈیننس لاتی ہے)جس کے تحت مسلم یونیورسٹی کے قانون کومعطل کردینےاوراقلیتی کردار کو چھین لینےکی سازش رچی گئی۔
مسٹرچھاگلہ کی اس سازش اور آرڈی ننس کےخلاف پارلیامنٹ سے لیکر عوامی حلقےتک مجاہد دوراں علیہ الرحمہ نے پورا زور اور قوت صرف کی تاکہ اس غلط فیصلےکو واپس لیاجائے۔مجاہد دوراں کی پارلیامنٹ کی تقریرکاابتدائی حصہ ملاحظہ کریں:
"جناب اسپیکر صاحب! مجھےآج انتہائی افسوس کےساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر غلط نافذ ہونےوالے آرڈی ننس کےمتعلق کچھ عرض کرناہے۔
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں 25 اپریل 1965ء کو ایک معمولی اور ناقابل تذکرہ واقعہ اور اس پر حکومت کا غیرمعمولی رد عمل اور عاجلانہ اقدام مسٹر چھاگلہ کی ضداور زبان درازی نے ایک ایسافتنہ کھڑا کردیاہےکہ اگراس کو تدبیراور دوراندیشی کےساتھ حل نہ کیاگیاتوہماری مشترکہ قومیت اور سیکولرازم کی بنیادیں تباہ ہوجائیں گی،اور حکومت جوملک کےآئین کی محافظ اور اس کےمقاصد کی تکمیل وتعمیل کی ذمہ دار ہےاس پر آئین کےمنشاء سےانحراف کاالزام ہمیشہ باقی رہےگا۔
نواب علی یاورجنگ کی شان میں گستاخی کےجس واقعہ کو ہزار ہاحاشیہ آرائیوں کےساتھ اچھالاجارہاہےوہ قابل صدافسوس ہے۔"(سرگذشتہ حیات مجاہد دوراں۔غیرمطبوع)
مجاہد دوراں علیہ الرحمہ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےاقلیتی کردار کےتحفظ کےلیے پارلیامنٹ کی تقریرمیں بیان کےساتھ متعدد میٹنگیں بھی کی اور اتجاج بھی کیا۔
اس تعلق سے 25 مئی 1965ء میں مجاہد دوراں علیہ الرحمہ نےجونپورمیں میٹنگ کی اور حکومت کو احتجاجی زبان میں سمجھاتےہوئے فرمایا:
"مسلم یونیورسٹی ہمارا مقدس تعلیمی وتہذیبی ورثہ ہے جس کو مٹانےکی ہرکوشش کو ہم ناکام بناکررہیں گے، آرڈی ننس کانفاذ یونیورسٹی کی آزادی کےدامن پر ایک بدنماداغ ہےاگرچھاگلہ نے آرڈی ننس واپس نہیں لیاتو 16 اگست 1965ء کو لال قلعہ کےمیدان میں احتجاجی جلسہ اور 17 اگست کو پارلیامنٹ کےسامنےزبردست مظاہرہ کیاجائےگا"۔(ایضا:)
لال قلعہ کےمیدان میں احتجاجی جلسہ اور پارلیامنٹ کےسامنےمظاہرہ ہوا یانہیں اس تعلق سےکوئی معلومات دستیاب نہیں ہوپائی۔ 
شہزادۂ مجاہد دوران علامہ سیدظفرمسعود صاحب قبلہ اشرفی علیہ الرحمہ سےاستفسار کرنےپر بتایاکہ:
"مجاہد دوراں علیہ الرحمہ جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےاقلیتی کردار کےتحفظ اور آرڈی ننس کےخلاف پارلیامنٹ میں بیان دیکر باہرتشریف لائےتو اےایم یوکےطلباء نے احسان مندی کےجذبات سےسرشار ہوکر آپ علیہ الرحمہ کو اپنےکندھوں پر اٹھالیا،آپ پارلیامنٹ سےجب فیروزشاہ روڈ پہنچے تو پولیس نے آپ کو وہاں سےگرفتار کرلیا۔
یہ بھی ممکن ہےکہ آپ علیہ الرحمہ نے لال قلعہ کےمیدان میں احتجاجی جلسہ بھی کیاہو اور پارلیامنٹ کےسامنے مظاہرہ بھی اور اسی کےنتیجےمیں آپ کو گرفتار کیاگیاہو۔
حکومت اس معاملےکو لیکر بہت حساس تھی اور جوبھی اس معاملےکو لیکرمیدان میں آرہاتھاحکومت اس کی آواز دبانےکی ہرممکن کوشش کررہی تھی۔
جس کااندازہ اس بات سےلگائیےکہ حفیظ نعمانی صاحب نے 1965ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےاقلیتی کردار اور یونیورسٹی کی تاریخ پر ہفت روزہ اخبار ندائےملت کاخصوصی ضمیمہ شائع کیا۔حکومت نے ندائےملت کی تمام کاپیاں ضبط کرلی اور حفیظ نعمانی صاحب کو جیل بھیج دیا۔ جب صرف اخبار کےخصوصی ضمیہ کی اشاعت پرحفیظ نعمانی صاحب کو جیل بھیجاجاسکتاہے توجس نےایوان پارلیامنٹ سےلیکر سڑکوں تک احتجاج اور مظاہرےکیےہوں توان پر پہلےہی سے حکومت کی چشم عنایت رہی ہوگی اور حکومت نے بزور زبردستی اپناسرکاری مہمان بنایاہوگا۔ اگرکوئی درد مند مجاہد دوراں کی حیات ہی میں ان کی تاریخ مرتب کرتاتو ممکن تھابےشمار قربانیاں اور مجاہدانہ کردار کی جھلکیاں تاریخ کا ایک نمایاں حصہ ہوتی۔

*نسبندی کے خلاف آواز بلند کرنےپر گرفتاری:*
اندرا گاندھی سابق وزیر اعظم ہند کا مزاج آمرانہ تھا ،ان کے دور اقتدار میں عوام پر ظلم وجبر کیا گیا، اندراگاندھی سیاسی مخالفین کو کچلنے کےلیے کسی بھی حدتک جاسکتی تھی۔ 1975ء میں پورےملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیاگیا ،تمام شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرلیے گئے، اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو قید سلاسل میں جکڑ کر نذرزنداں کردیاگیا۔ان تمام حالات کے ساتھ نسبندی جیسا جابرانہ وظالمانہ قانون بھی نافذ کردیاگیا ۔پولیس عوام کو بزور زبردستی پکڑکرنسبندی کروارہی تھی، اسی اثنا میں نسبندی کے جواز یا عدم جواز پر حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضاخاں نوری بریلوی علیہ الرحمہ سے استفتا کیاگیا، آپ علیہ الرحمہ نے نسبندی کے عدم جواز کا فتوی دیا۔حضور مجاہد دوراں علیہ الرحمہ نے مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے فتوے کوملک بھرمیں عام کیا ،جگہ جگہ بیانات دیے،نسبندی کے خلاف محاذ آرا ہوئے ۔نتیجے میں آپ حکومت کو کھٹکنے لگے اور حکومت نےبریلی شریف میں آپ کو پس زنداں ڈال دیا، تقریبا تین مہینہ آپ علیہ الرحمہ جیل میں رہے۔
آپ کی رہائی کے لیے کوشش کرنےوالوں میں حضرت ریحانی میاں صاحب قبلہ بریلی شریف ،حضرت مولاناسیداسرار الحق صاحب قبلہ شاہجہان پوری ،شہزادۂ مجاہد دوراں سید محفوظ الرحمان صاحب قبلہ تھے ۔
نسبدی کےکےمعاملےمیں حضورمجاہد دوراں علیہ الرحمہ تقریبا3 ماہ بریلی شریف کی سینٹرل جیل میں رہے۔
اسی وقت سینٹرل جیل میں مجاہد دوراں علیہ الرحمہ نےاپنی کیفیات،احساسات، جذبات،دردوغم، گلستاں کی حفاظت کےلیےباغبانوں سےشکوہ اور ان کےلیےدعا،انقلاب آفریں تخیل وتصور پیش کرتےہوئےایک نظم کہی جو آپ کےمجموعہ کلام نسیم حجاز میں شامل ہے ملاحظہ فرمائیں:
*نغمۂ قفس*
(سنٹرل جیل بریلی 76ء؁)
قدم قدم پہ ہیں پابندیاں زباں کے لیے 
کہاں سے لاؤں زباں ان کی داستاں کے لیے
بہک گئے ہیں قدم کارواں کے منزل سے
کوئی اٹھاؤ قدم میر کارواں کے لیے
وہ گلستا ں جسے خون جگر سے سینچا تھا
نہ چار تنکے ملے مجھ کو آشیاں کے لیے
نہ مسکراؤ گلو یہ ہیں انقلاب کے دن
بہار لائی گئی ہے مگر خزاں کے لیے
بدل تو سکتا ہے اندازِ گلستاں اب بھی
جو تھوڑی عقل خدا دے دے باغباں کے لیے
ہزاروں در ہیں ہزاروں ہیں خواہشات صنم
کہاں سے لاؤں جبیں اور کہاں کہاں کے لیے
یہ قید وبند یہ تنہائیاں ارے توبہ
یہ دن نہ لائے خدا مرے کارواں کے لیے
جو دن دکھائے مظفر ہیں اس زمانے نے
وہ دن بھی آئے گا واللہ مہرباں کے لیے
(نسیم حجاز۔ص:117)
یوں آزاد بھارت کاایک بےلوث مجاہد، راہ عزیمت کا ایل عظیم مسافر اپنے مجاہدانہ اور غازیانہ کردار کے ساتھ آسمان علم وفضل پر چمکتادمکتارہا۔ اپنی بے لوث خدمات اور قربانیوں کے سبب ہمیشہ اہل دل وانصاف کے نگاہوں کا سرمہ بنارہا۔ نہ کبھی اپنی خدمات کاصلہ طلب کیا اور نہ داد ودہش کی خواہش رکھی اور نہ قیدوبند پر شکوےکیے اور نہ راہ عزیمت سے سرِ مو بھی بھی انحراف کیا بل کہ اسلام کا ایک بےلوث مجاد، سچا سپاہی اور سپہ سالاربن کر کارواں کوآگے بڑھاتارہا۔
پھر یہ مسافر 9 رجب المرجب 1418ھ مطابق 10 نومبر 1997ء میں اپنی متاع حیات کو سمیٹ کر راہی ملک عدم ہوگیا اور پیچھےیادیں چھوڑ گیا۔

9 رجب 1445ھ
21 جنوری 2024ء

टिप्पणियाँ

इस ब्लॉग से लोकप्रिय पोस्ट

वक़्फ क्या है?"" "" "" "" **वक़्फ अरबी

जब राम मंदिर का उदघाटन हुआ था— तब जो माहौल बना था, सोशल मीडिया

मुहम्मद शहाबुद्दीन:- ऊरूज का सफ़र part 1 #shahabuddin #bihar #sivan